طنزومزاح پر مبنی اردوکتب مفت ڈاونلوڈ,بانگ دہل از استاد امام دین گجراتی
گجرات پاکستان کے صوبہ پنجاب میں واقع ایک قدیم شہر ہے۔ مغلیہ دور کے بادشاہوں کا کشمیر جانے کا راستہ یہی گجرات تھا۔ انگریزوں اور سکھوں کے درمیان دو بڑی لڑائیاں بھی اسی ضلع میں لڑی گئیں جن میں چیلیانوالہ اور گجرات کی لڑائی شامل ہیں۔ یہاں کے باشندوں کے بارے میں ایک کہاوت ”جوتی چُک“ کے نام سے مشہور ہے۔ ہوا یوں کہ ایک ہندو اس راستے سے کہیں جا رہا تھا۔ گجرات سے آگے نکل کر اس کی بیوی گم ہو گئی، اس نے لوگوں سے کہنا شروع کر دیا کہ اس کی جوتی چوری ہو گئی ہے۔ اصل میں پُرانی سنسکرت زبان میں جوتی ”بیوی“ کو کہا جاتا تھا۔ گجرات کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس کے تین فوجی جوان میجر عزیز بھٹی، میجر شبیر شریف اور میجر محمد اکرم وطن پر جانثار ہو کر نشانِ حیدر کے حقدار ٹھہرے لیکن اس کو اصل شہرت رومانی داستان سوہنی ماہیوال اور مزاحیہ شاعر اُستاد امام دین گجراتی کی وجہ سے ملی۔ اُستاد امام دین گجراتی 1870ء میں پیدا ہوئے اور 22فروری 1954ء کو وفات پائی۔ ان کا اصلی نام امام دین تھا۔ اپنی منفرد، طنزیہ اور عجیب و غریب طرز کی شاعری کی بناء پر اُستاد کہلاتے تھے جبکہ گجرات سے تعلق کی بناء پر اُستاد امام دین گجراتی کے نام سے مشہور ہو گئے۔مجھے ٹیچر نہ سمجھو تم کسی اسکول یا کالج کافقط تخلص ہم جناب والا اُستاد رکھتے ہیںاُستاد امام دین کی تعلیم پرائمری تھی اور وہ میونسپل کمیٹی میں محصول چونگی پر منشی گیری کرتے رہے۔ اپنی اٹھائیس سالہ ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعداُنہوں نے سوختنی لکڑی کی فروخت کا کام شروع کر دیا تھا ۔ ہر چند فنِ شاعری سے نابلد تھے لیکن شاعری کے یہ کم تعلیم یافتہ پہلوان اپنے مقابلے میں اقبال اور غالب جیسے شاعروں کو بھی خاطر میں نہ لاتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ علامہ کی کتاب ”بانگ درا“ کے مقابلے میں اپنا شعری مجموعہ ”بانگ دہل“ میدان میں اُتار لیا۔ اُستاد امام دین کو ایک بار شاعرِ مشرق سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا اور پھر اُنہوں نے اپنے مخصوص شاعرانہ انداز میں اقبال کا تصویری نقشہ کچھ یوں کھینچا :ہم نے بھی لاہور جا کر دیکھا علامہ سر محمد اقبالباتیں بھی کرتا جاتا تھا، حقہ بھی پیتا تھا نال نالاُستاد امام دین چونکہ علامہ اقبال کی طرح اعلیٰ تعلیم یافتہ نہ تھے لیکن پھر بھی خود کو اُن سے چھوٹا شاعر نہ سمجھتے تھے۔ امام دین نے اپنے نام کے ساتھ کئی ڈگریاں تک جوڑ رکھی تھیں۔ان ڈگریوں کے باعث اُستاد امام دین جہاں بی اے، ایم اے ہیں وہاں بفضلہ تعالیٰ پی ایچ ڈی بھی ہیں۔ اُستاد امام دین کی شاعری کی طرح ڈگریاں بھی ایک عام آدمی کو چکرا کر رکھ دیتی ہیں۔ کچھ ایسا ہی معاملہ میرے ساتھ بھی پیش رہا ۔ میں نے جب اُن کے شعری مجموعہ بانگ دہل کا مطالعہ کیا تو اس پرائمری پاس شاعر کی ڈگریاں دیکھ کر حیران و ششدر رہ گیا لیکن بعد میں یہ راز کھلا کہ اُنہوں نے بی اے کی جو ڈگری حاصل کر رکھی ہے وہ بیچلر آف آرٹس نہیں بلکہ ”بابائے ادب“ کہلاتی ہے۔ ایم اے کی ڈگری ”موٴجدِ ادب“ جبکہ پی ایچ ڈی ”فاضل ڈگری“ کی صورت میں موجود ہے۔ ان کے علاوہ بھی اُستاد امام دین نے لاثانی المعانی ، افسر شعر و شاعری اور استاد شعرائے عالم جیسی ڈگریاں اپنے نام کے ساتھ جوڑ رکھی ہیں۔ یہ تمام القابات یا ڈگریاں کسی یونیورسٹی سے نہیں بلکہ اُن کے چاہنے والوں کی طرف سے تفویض کی گئی ہیں۔ادبی دنیا کی اس معروف ہستی کے اشعار اس قدر عوامی تھے کہ ہر خاص و عام نے ان میں اضافے کیئے۔یوں ہر وہ شعر جو تنگنائی بحر میں نہ سماتا ہو اُستاد امام دین کے نام منسوب ہو تا گیا۔ اس کی وجہ شاید یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ اُستاد جی کے اکثر اشعار میں غیر پارلیمانی زبان استعمال ہوتی تھی اور اسی لیئے اُس دور میں اُن کی کئی کتابیں شائع ہونے سے رہ گئیں۔ ”بانگ دہل“ مجھے بنفس نفیس پڑھنے کا شرف حاصل ہوا مگر اُس میں ایسا کچھ بھی نہیں پایا گیا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ بانگ دہل صرف اُن اشعار کا مجموعہ ہو جو سنسر شپ کے زمرے میں نہ آتے ہوں ورنہ جتنا تحقیق کا عمل اُس وقت کے دوسرے شعراء کی شاعری پر ہو چکا ہے اُستاد جی کی شاعری پر نہ ہو سکا۔ امام دین چونکہ اپنے منفرد انداز کی مزاحیہ اور طنزیہ شاعری کی وجہ سے شہرت رکھتے ہیں اس لیئے بہت سے ایسے اشعار بھی اُن کی ذات کے ساتھ جوڑ دیئے گئے ہیں جن کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ جس طرح آج کل معروف شاعر احمد فراز مرحوم کی شاعری کو ”رغڑا“ لگا ہوا ہے۔ احمد فراز مرحوم کی وفات سے کچھ عرصہ قبل ان کے حوالے سے جعلی اور مزاحیہ ایس ایم ایس کا سلسلہ شروع ہوا جو اُن کی وفات کے بعد بھی جاری ہے۔ اُستاد امام دین کے وقت میں چونکہ موبائل کا وجود بھی نہ تھا اس لیئے اُن کے حلقہ احباب کے ذریعے سے یہ شاعری مختلف محفلوں کی رونق بنتی رہی اور پھر آہستہ آہستہ مرچ مصالحے کے ساتھ آگے بڑھتی گئی ۔ اس طرح کئی ایسے اشعار جن کا استاد امام دین سے کوئی تعلق نہیں تھا وجود میں آئے