Tipu Sultan Sher e Mysore

ٹیپو سلطان (پیدائش:10 نومبر 1750ء - وفات:4 مئی 1799ء) شیرِ میسور، سلطان حیدر علی کےسب سے بڑے فرزند، ہندوستان کے اصلاح و حریت
پسندحکمران، بین المذاہب ہم آہنگی کی زندۂ جاوید مثال، طغرق (فوجی راکٹ) کے موجد تھے

حالات زندگی

'ٹیپو سلطان کا پورا نام فتح علی ٹیپو تھا۔ آپ بنگلور، ہندوستان میں 20 نومبر 1750ء میں حیدر علی کے گھر پیدا ہوئے۔ آپ کے والد سلطان حیدر علی نے جنوبی ہند میں 50 سال تک انگریزوں کو بزورِ طاقت روکے رکھا اور کئی بار انگریزافواج کو شکست فاش بھی دی۔
ٹیپو سلطان کا قول تھا:

شیر کی ایک دن کی زندگی ، گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔

آپ نے برطانوی سامراج کے خلاف ایک مضبوط مزاحمت فراہم کی اور برصغیر کے لوگوں کو غیر ملکی تسلط سے آزاد کرنے کیلیے سنجیدہ و عملی اقدامات کئے ۔سلطان نے انتہائی دوررس اثرات کی حامل فوجی اصلاحات نافذ کیں صنعت و تجارت کو فروغ دیا اور انتظامیہ کو ازسرنو منظم کیا سلطان کو اس بات سے اتفاق تھا کہ برصغیر کے لوگوں کا پہلا مسئلہ برطانوی اخراج ہے۔ نظام حیدرآباد دکناور مرہٹوں نے ٹیپو کی طاقت کو اپنی بقا کیلیے خطرہ سمجھا اور انگریزوں سے اتحاد کرلیا۔

علم دوست حکمران
ٹیپو سلطان کی زندگی ایک سچے مسلمان کی زندگی تھی مذہبی تعصب سے پاک تھے یہی وجہ تھی کہ غیر مسلم ان کی فوج اور ریاست میں اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے۔ ٹیپو سلطان نے اپنی مملکت کو مملکت خداداد کا نام دیا ۔حکمران ہونے کے باوجود خود کو عام آدمی سمجھتے ۔باوضو رہنا اور تلاوت قرآن آپ کے معمولات میں سے تھے ۔ ظاہری نمودونمائش سے اجتناب برتتے ۔ ہر شاہی فرمان کا آ‏غاز بسم اللہ الرحمن الرحیم سے کیا کرتے تھے۔ زمین پر کھدر بچھا کر سویا کرتے تھے۔
ٹیپو سلطان ہفت زبان حکمران کہے جاتے ہیں آپ کو عربی، فارسی، اردو، فرانسیسی، انگریزی سمیت کئی زبانوں پر دسترس حاصل تھی۔ آپ مطالعے کے بہت شوقین تھے اور زاتی کتب خانے کے مالک تھے جس میں کتابوں کی تعداد کم و بیش 2000 بیان کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ آپ سائنسی علوم میں خاصی دلچسپی رکھتے تھے۔ آپ کو برصغیر میں راکٹ سازی کا موجد کہا جاتا ہے۔

عظیم سپہ سالار

ہر جنگ میں اپنی افواج کے شانہ بشانہ رہنے والے ٹیپو سلطان اپنے زمانے کے تمام فنون سپہ گری سے واقف تھے۔ اپنی افواج کو پیادہ فوج کے بجائے سواروں اور توپ خانے کی شکل میں زیادہ منظّم کیا ۔ اسلحہ سازی، فوجی نظم و نسق اور فوجی اصلاحات میں تاریخ ساز کام کیا۔

میسور کی چوتھی جنگ

میسور کی چوتھی جنگ جو سرنگاپٹم میں لڑی گئی جس میں سلطان نے کئی روز قلعہ بند ہوکر مقابلہ کیا مگر سلطان کی فوج کے دو غدّار میر صادق اور پورنیا نے اندورن خانہ انگریزوں سے ساز باز کرلی تھی۔ میر صادق نے انگریزوں کو سرنگاپٹم کے قلعے کا نقشہ فراہم کیا اور پورنیا اپنے دستوں کو تنخواہ دینے کے بہانے پیجھے لے گيا۔ شیر میسور کہلانے والے ٹیپو سلطان نے داد شجاعت دیتے ہوئے کئی انگریزوں کو جہنم واصل کیا اور سرنگاپٹم کے قلعے کے دروازے پر جامِ شہادت نوش فرمایا

ٹیپو سلطان کا خط نظام الملک کے نام

میر نظام علی خان کا داماد نواب مہا بت جنگ کا دیوان اسد علی خان صلح کا پیغام لے کر ٹیپو سلطان کے پاس پہنچتا ہے تو ٹیپو سلطان اس کی واپسی پر اپنے ایلچی محمد غیاث کو نظام الملک کے نام ایک خط لکھ کر روانہ کرتے ہیں۔

جناب عالی!
آداب میں ٹیپو سلطان بن حیدر علی خان بہادر آپ کو یہ بتا دینا بہتر اور ضروری سمجھتا ہوں کہ میں ملک کا ایک ادنیٰ خادم ہوں اور اپنے ملک کو اپنی ماں کا درجہ دیتا ہوں، اور میری فوج اور علاقے کے ہر حب الوطن کو وطن پر قربان کر کے بھی اگر ملک اور قوم کو بچا سکا تو یہ میری خوش نصیبی ہو گی۔ اصل بات تو یہ ہے کہ میرے ملک میں رہنے والے ہر فرد کو ملک کا خادم ہونا چاہیے، لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ مرہٹوں کے ساتھ مل کر اپنی ہی ملک کے باشندوں کو تباہ کرنے ، ملک کو کھوکھلا کرنے اور اسکی معاشی اور ثقافتی حالات کو تباہ و تاراج کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ معلوم ہو کہ آپ دونوں کی ملی بھگت کی وجہ سے میرا ملک اور وطن پامال اور میری رعایا کو شکستہ حال کیا جا رہا ہے۔ میں نے آپ کو رازداری میں یہ بھی سمجھا یا تھا کہ اگر آپ اور میں دونوں مل کر ہم خیال بن جاتے ہیں تو مرہٹوں کی کیا مجال کہ وہ ہماری ریاستوں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھ سکیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہی ہے کہ اپنی عیاری اور چالاکی کی وجہ سے انگریز آپ کو مجھ سے ملنے نہیں دیتے اور آپکے دل میں کدورت بھرتے آ رہے ہیں۔ اور تعجب ہے کہ آپ اس بات کوسمجھ نہیں رہے ہیں۔وہ آپ کو اکسا رہے ہیں کہ آپ مرہٹوں کے ساتھ مل کر میرے خلاف فوج کشی کرتے رہیں۔ اگر بات آپ کو سمجھ میں آ جا تی ہے تو میں یہ مشورہ دوں گا کہ آپ کی اور میری دوستی امن اور آشتی میں بدل سکتی ہے تو اس ایک بات پر کہ آپ کے خاندان کے لڑکے، بھتیجے، بیٹوں کومیرے خاندان کے لڑکیوں کے ساتھ اور میرے بھتیجے، بیٹوں کو آپ کے خاندان کی لڑکیوں کے ساتھ بیاہا جائے تاکہ دونوں ریاستوں میں دوستی بڑھ جائے۔ فقط ۔ ٹیپو سلطان۔[2]

علامہ اقبال کی نظر میں

شا‏عر مشرق علامہ اقبال کو ٹیپو سلطان شہید سے خصوصی محبت تھی 1929ء میں آپ نے شہید سلطان کے مزار پر حاضری دی اور تین گھنٹے بعد باہر نکلے تو شدّت جذبات سے آنکھیں سرخ تھیں۔ آپ نے فرمایا
ٹیپو کی عظمت کو تاریخ کبھی فراموش نہ کرسکے گی وہ مذہب ملّت اور آزادی کے لیے آخری دم تک لڑتا رہا یہاں تک کے اس مقصد کی راہ میں شہید ہوگیا

انگریزوں کے ہاتھوں قتل

ٹیپو سلطان 5 مئی 1799ء میں سرنگا پٹم، ہندوستان میں انگریزوں کے خلاف لڑتے ہوئے انتقال کرگئے۔

مذہبی عدم رواداری کا الزام

2014ء میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے بھارت برسراقتدار آنے کے بعد سے دیگر کئی مسلم حکمرانوں کی طرح ٹیپو سلطان اور ان کے والد حیدر علی پر مذہبی عدم رواداری اور بڑے پیمانے پر ہندوؤں کے قتل کا الزام عائد کیا جانے لگا۔ نومبر 2015ء میں کرناٹک کی برسراقتدار سدارمیا کی زیرقیادت کانگریس حکومت نے حسب سابق ٹیپو سلطان کے یوم پیدائش کا جشن منایا تو ریاست کے مَدِیْکیرِی علاقے میں ایک مسلم تنظیم اور وشوا ہندو پریشد کے بیچ پرشدد چھڑپیں ہوئی۔ یہ دعوٰی کیا گیا کہ اس میں مقامی قائد ڈی ایس کُٹپا کی موت ہوگئی۔ تاہم بعد میں پتہ چلا کہ وہ ایک بیس فیٹ اونچی دیوار سے گرکر فوت ہوگئے۔[3] چھڑپوں میں ایک مسلم شخص ہلاک ہوگیا۔










اس کتاب کو ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔